
اسلام آباد : گلف انسائڈ اردو: ’جو ریاست اپنے شہریوں کو اپنے لیے بامقصد بنانے کی غرض سے انکا قد کاٹھ گھٹا کر بونا بنائے کہ شاید ایسا کرنے سے وہ زیادہ مودب ہو جائیں گے، جلد اس ریاست پر کھلے گا کہ بونوں کے بل پے عظیم منزلیں مسخر نہیں کی جا سکتیں۔‘
یہ قول فلسفی جان سٹیورٹ مل کا ہے جسے پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نےمسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی درخواست ضمانت سے متعلق تفصیلی تحریری فیصلے کے آغاز پر نقل کیا ہے۔
87 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا ہے کہ ملک میں احتساب کے قانون کو سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے اور سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔
’ان قوانین سے گورننس، معاشرے، سیاسی نظام میں ملک کے لیے بہتری کے بجائے مزید ابتری آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا۔‘
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ نیب کے چیئرمین کی جانب سے ملزم کی گرفتاری کے اختیار کو ہراسگی اور دباؤ میں ڈالنے کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ نیب احتساب کے نام پر ایک جانب کی سیاسی قیادت کے خلاف کارروائی کرکے مہینوں بلکہ برسوں تک قید میں رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف کے افراد کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھانے میں بھی سستی کرتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ امریکہ کے چیف جسٹس کے بقول ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے آئین کی تشریح کرنی ہے۔ جس مقدمے میں کسی شہری کی عزت اور آزادی کا سوال ہو وہاں عدالتوں کو سختی کے ساتھ استغاثہ کے مقدمے کو جانچنا چاہیے۔
Hi, this is a comment.
To get started with moderating, editing, and deleting comments, please visit the Comments screen in the dashboard.